کیا آپ کو لگتا ہے کہ دیویندر فڑنویس مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟
مولوی محمد سرور، متخصص فی الحدیث
صفر المظفر قمری مہینوں میں سے دوسرا مہینہ ہے، تین حروف (ص۔ف۔ر) سے مل کر بنا ہے اور عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے متعدد معنی بیان کیے گئے ہیں، ایک معنی پیٹ کے کیڑے یا سانپ کے آتا ہے، چناں چہ امام اللغة سید محمد مرتضیٰ عیسی الزبیدی اپنی شہرہ آفاق تالیف تاج العروس میں تحریر فرماتے ہیں ”سأل رؤیة عن الصفر فقال: ھو حیة تکون فی البطن، تصیب الماشیة والناس“․
کہ صفر کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا: پیٹ میں ایک کیڑا ہے…۔ ( تاج العروس97/7 ،باب الراء، ط: دارالفکر)
ایک معنی ”خالی ہونا“ ہے، چناں چہ لغت کے امام علامہ ابن منظور افریقی متوفی711ھ لسان العرب میں رقم طراز ہیں۔
”الصفر والصفر والصفر: الشيء الخالی، وقالوا: إناء اصفار لاشيء فیہ“․
کہ صِفر، صَفر، صُفر خالی چیز کو کہتے ہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے جب برتن میں کچھ نہ ہو ” إناء اصفار“۔ (لسان العرب،533/4 ،دارالکتب العلمیہ)
مشہور اسلامی مہینے کو کہتے ہیں، جیسا کہ علامہ ابن منظور افریقی نے ذکر کیا ہے ”وصفر الشھر الذی بعد المحرم“․( لسان العرب،534/4 ،باب الراء، ط: دارالکتب العلمیہ)
عرب کے لوگ صفر کے مہینے میں اپنی ضرورت کی اشیا لینے گھروں سے نکل جاتے تھے، اسی طرح جنگ وجدال کے لیے نکل جاتے تھے، کیوں کہ محرم الحرام کی حرمت کی وجہ سے وہ جنگ سے باز رہتے تھے ، مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کے ذہنوں میں صفر کی متعلق عجیب وغریب قسم کے خیالات بھی پیوست تھے، مگر افسوس! موجودہ معاشرے میں بھی اس طرح کے خیالات پیوست ہیں، اس ماہ کو منحوس سمجھتے ہیں، نکاح کرنے کو اچھا خیال نہیں کیا جاتا، نحوست دور کرنے کے لیے مختلف قسم کے ٹوٹکے کیے جاتے ہیں، ان سے جب دلیل کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو جھٹ سے ایک من گھڑت روایت پیش کر دیتے ہیں، جسے محدث جلیل علامہ ملا علی قاری الھروی نے ذکرکیا ہے ۔
”من بشرنی بخروج صفر بشرتہ بدخول الجنة“․
قال: لا اصل لہ
کہ جو مجھے صفر کے گزرنے کی خبرد ے گا میں اسے جنت میں داخلے کی خوش خبری
دیتا ہوں۔ اس روایت کی کوئی حقیقت نہیں۔ ( الاسرار المرفوعة فی الاخبار
الموضوعہ:255 ط: قدیمی کتب خانہ، کراچی)
علامہ طاہر ہٹنی اور قاضی شوکانی اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ جلیل القدر ائمہ حدیث نے اس کے من گھڑت ہونے کو بہت پہلے طشت ازبام کیا ہے ، لہٰذا اس بات کی کوئی حقیقت نہیں۔
احادیث کی بیشتر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت کسی دضع کار بدبخت نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات میں شامل کردی ہے، آپ علیہ السلام نے توہم پرستی کی نفی کی ہے، اس کے بارے میں متعددروایات موجود ہیں، امام بخاری نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ” الجامع الصحیح“ میں ان روایات کو ذکر کیا ہے ، چناں چہ ابوہریرہ سے نقل فرماتے ہیں۔
قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ”لا عدوی ولا طیرہ ولا ھامہ، ولا صفر، وفر من المجذوم کما تفرمن الاسد“․
کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بیماری کا متعدی ہونا، بدشگونی، اُلّو کی نحوست اور صفر ان کی کوئی حقیقت نہیں، کوڑھ کے مریض سے ایسے بھاگو جیسے تم شیر سے ڈر کر بھاگتے ہو۔ (الجامع الصحیح856/2، ط: قدیمی کتب خانہ کراچی)
اسی طرح امام ابوالحسن مسلم بن الحجاج القشیری اپنی تالیف ”المسند الصحیح لمسلم“ میں تحریر فرماتے ہیں۔
عن ابی ھریرة قال:
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:” لاعددی، ولاھامہ، ولانوء، ولاصفر“․
کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرض کا لگ جانا، اُلّو کی نحوست اور صفر یہ سب وہم پرستی ہے ، ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ ( المسند الصحیح لمسلم:231/2 ط: قدیمی کتب خانہ)
مذکورہ بالا احادیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ سہارنپوری نے حاشیہ صحیح بخاری میں مجمع بحار الانوار کے حوالے سے لکھا ہے۔ ”قولہ ولا صفر یفتحتین قیل ھوالشھر المعروف زعموا (ای العرب) ان فیہ یکثر الدواہی والفتن فنفاہ الشارع علیہ السلام“․
کہ صفر” صاد“ اور ”فا“ کے زبر کے ساتھ مشہو رمہینے کو کہتے ہیں ، عربوں کا خیال تھا کہ اس ماہ میں فتنے اور مصیبت نازل ہوتی ہے ، تو آپ علیہ السلام نے اس نظریے کی تردید کی۔(حاشیہ الصحیح للبخاری 856/2 ،ط: قدیمی کتب خانہ)
ان احادیث کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اس طرح کے تمام خیالات فضول ہیں ان سے بچا جائے اور قرآن وسنت کے بتائے ہوئے راستے پر چلا جائے، چناں چہ اس سلسلے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی بہشتی زیور میں فرماتے ہیں۔
”صفر کو تیرہ تیزی کہتے ہیں اور اس مہینے کو نامبارک جانتے ہیں اور بعض جگہ تیرہویں تاریخ کو کچھ گھونگنیاں وغیرہ پکا کر تقسیم کرتے ہیں کہ اس کی نحوست سے حفاظت رہے۔ یہ سارے اعتقاد شرع کے خلاف اور گناہ ہیں، توبہ کرو“ ۔ (بہشتی زیور، چھٹا حصہ،59،ط: دارالاشاعت کراچی)
آخری چہار شنبہ کی حقیقت
ماہ صفر کے آخری بدھ میں لوگ خوشیاں مناتے ہیں، سیر وتفریح کے لیے سیرگاہ
اور دوسری جگہوں پر جاتے ہیں ، مزدور چھٹیاں مناتے ہیں، مالکان مٹھائی
تقسیم کرتے ہیں اور وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ” اس دن آپ صلی الله علیہ
وسلم نے غسل صحت فرمایا تھا۔“
یہ بات غلط مشہور ہے ، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ اس دن سے تو حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے مرض کی ابتدا ہوئی تھی، تاریخی روایات وشواہد اس رسم کے بے بنیاد اور باطل ہونے کو بتاتے ہیں، چناں چہ مشہور سیرت نگار علامہ سید سلمان ندوی لکھتے ہیں :
” زیادہ تر روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کل تیرہ دن بیمار رہے، اس بنا پر اگر تحقیقی طور سے متعین ہو جائے کہ آپ نے کس تاریخ کو وفات پائی تو تاریخ آغاز مرض بھی متعین کی جاسکتی ہے … ایام علالت کی مدت آٹھ روز تو یقینی ہے ، عام روایات کی رو سے پانچ دن اور بھی ہیں اور یہ قرآئن سے بھی معلوم ہوتا ہے ۔ اس لیے تیرہ دن مدت علالت صحیح ہے۔ اس حساب سے علالت کا آغاز چہار شنبہ(بدھ) سے ہوتا ہے۔(حاشیہ سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم ،مولانا شبلی نعمانی:104/2 ، ط: ادارہ اسلامیات)
”آخری چہار شنبہ (بدھ) کی کوئی اصل نہیں، بلکہ اس دن جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کوشدت مرض واقع ہوئی تھی تو یہودیوں نے خوشی کی تھی، وہ اب جاہل ہندیوں (ہندوستانی) میں رائج ہو گئی۔ ”نعوذ بالله من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا“․ (فتاوی رشیدیہ:59، ادارہ تالیفات اشرفیہ)
جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ کہ یہ رسم دشمنان اسلام یہودیوں کی ایجاد کردہ ہے اور انہوں نے اپنے کینہ اور بغض کے لیے ایسا کیا تھا، اب اہل اسلام کا اس کا اہتمام کرنا اور خوشی کا ذریعہ خیال کرنا کس قدر گستاخی کی بات ہے ، یہود کی یہ غلط رسم روافض کی افسانوی روایات او ران کی مسخ شدہ تاریخ کی بدولت جاہل لوگوں میں عام ہو گئی، اس سے پرہیز کرنا ہر مسلمان کے ایمانی جذبات کا حصہ ہے۔